ہر سال کی طرح اس سال بھی ہم گرمیوں کی چٹھیوں کےلیےپاکستان گئے لیکن اس بار کا دورہ پاکستان صرف دو ہفتوں پر مشتمل تھا. جب ہم پاکستان پہنچے تو ہمیشہ کی طرح ادھورے کاموں کو کرنے کی ٹھان کر کمر باندھ لی۔
سرکاری محکموں کا تجربہ
اپنی ہمشیرہ کے شناختی کارڈ کی تجدید کے حوالے سے لانڈھی ساڑھے تین نمبر پر واقع نادرا کے آفس کے دو چکر لگائے۔ وہاں کا عملہ انتہائی محنتی اور معاون ثابت ہوا۔ دوسری مرتبہ جب میں نادرا کا آفس کھلنے سے بھی پہلے قطار میں کھڑا تھا تو عجب منظر دیکھا کہ نادرا کا پورا عملہ انتہائی اہتمام کے ساتھ اپنے دن کا آغاز تلاوتِ قرآن پاک، نعتِ رسول مقبول صل اللہ علیہ والہ وسلم اور دعا کے ساتھ کر رہا تھا۔ بعد ازاں میں نے جب اپنے والد صاحب کے ساتھ یہ بات ڈسکس کی تو وہ بھی بہت حیران ہوئے اور یہ خیال ظاہر کیا کہ غالباً اس دفتر میں کوئی اچھا افسر تعینات ہو گیا ہے جب ہی یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔
نادرا کے علاوہ جب میں اپنے ڈرائیونگ لائسنس کی تجدید کیلئے مقامی آفس پہنچا تو معلوم ہوا کہ تجدید کیلئے آن لائن اپائنٹمنٹ لینا لازمی ہے۔ میں نے پریشانی اور درخواست کے ملے جلے لہجے میں متعلقہ پولیس افسرسے دریافت کیا کہ اگر میرے کام کی کوئی صورت نکل سکے تو اس نے بڑی وضع داری کے ساتھ جواب دیا “جب آپ نے اتنے اچھے طریقے سے پوچھا ہے تو ہمارا بھی یہ فرض ہے کہ آپ کو ہر قسم کی سہولت فراہم کریں”۔ قصہ مختصر، خلافِ توقع بہت آسانی سے لائسنس کی تجدید کے لیے درخواست جمع ہو گئی. کیا یہ سب کچھ بناوٹی تھا یا اصلی تھا، میں اسکا کچھ فیصلہ نہ کر سکا۔خوش گمانی کا تقاضہ ہے کہ اس معاملے کو سہولت ہی سمجھا جائے اور اپنے تمام محکموں کی بہتری کیلئے امید رکھی جائے۔
کراچی میں قیام اور میل ملاقاتیں
اس سال بھی ایک دن دوستوں سے ملاقات کیلئے وقف تھا. عمیر، فرخ اور انس سے انتہائی شاندار ملاقات لکی ون مال گلشن اقبال میں ہوئی اور متعدد موضوعات پر تبادلہ خیال ہوا۔ بچپن کی اور یونیورسٹی کی گہری دوستیاں اور تعلقات اس لحاظ سے بہت اہم ہوتے ہیں کہ یہ بناوٹ اور خود غرضی سے پاک ہوتے ہیں، آپ ایسے دوستوں سے چاہے برسوں بعد ملیں، ہر بار طبیعت باغ باغ ہو جاتی ہے۔ اسکے علاوہ بھی لانڈھی اور ملیر وغیرہ میں احباب کے ساتھ دلچسپ اور یادگار ملاقاتیں رہیں اور کئی پرانی یادیں بھی تازہ ہوئیں۔
اپنے بزرگوں اور فوت شدگان کی قبروں پر فاتحہ کیلئے اس بار بھی ہم محتاط ہو کر قبرستان گئے کیونکہ ریڑھی گوٹھ کا قبرستان اپنے محلِ وقوع کے لحاظ سے کچھ خطرناک ہے اور ہر لمحہ چھینا جھپٹی کا خطرہ رہتا ہے۔اسی دوران ہمارے نو عمر بھائی ہم سے 90 کی دہائی اور بزرگوں کے واقعات سنتے اور پوچھتے گئے، گھر آ کر میں نے یہ سوچا کہ ہم تو کچھ زیادہ ہی بڑے ہوتے جا رہے ہیں۔
ایک دن میں اپنے والد محترم کو لے کر کچھ فرنیچر لینے گیا تو روڈ کراس کرنے کیلئے میں نے اپنے تئیں ابو کا ہاتھ پکڑ کر ان کو روڈ کراس کروانے کی کوشش کی لیکن باپ تو آخر باپ ہوتا ہے، انہوں نے الٹا میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے ہی روڈ کراس کروا دیا اور میں بھی چپ چاپ انکے ساتھ چلتا رہا۔ اللہ تعالیٰ انہیں اور والدہ کو لمبی زندگی صحت کے ساتھ عطا فرمائے آمین ثم آمین
عید الاضحٰی 2023
عیدِ قرباں کی آمد کے ساتھ ہی گلی محلے میں قربانی کے جانوروں کی آمد شروع ہو گئی اور چہل پہل بہت بڑھ گئی۔اس بار خلافِ معمول ہمارے گھر کے پاس متعدد جانور لائے گئے، غالباً سات یا آٹھ گائے بیل اور انکا خیال رکھنے کیلئے لوگ ہی لوگ ہر دم موجود رہے۔ جانوروں کی خریداری میں اس بار جو مزہ آیا، وہ پہلے کبھی نہیں آیا۔ اس کی بڑی وجہ ساتھ چلنے والے بھائیوں اور کزنز کا جذبہ اور اخلاص تھا۔چھوٹے اور بڑے جانوروں کی خریداری میں دیگر چیزوں کے مقابلے میں خوبصورتی کا خیال رکھا گیا، مجال ہے جو کسی نے گوشت یا وزن کی بات کی ہو۔ سب جانور ایسے لیے جو ہمارے دل کو بھائے، اللہ تعالیٰ کے کرم سے مہنگائی کے خدشات کے باوجود مناسب داموں پر بکروں اور بچھڑوں کی خریداری مکمل ہو گئی۔ اس سال کئی سال بعد ہم نے اپنے گھر میں بکرے باندھے، اس سے جہاں بچوں کی خوشی دو گنی ہوئی وہیں پر ہمیں بھی جانوروں کی دیکھ بھال کا کچھ موقع مل گیا۔ انہیں اپنے ہاتھ سے چارہ کھلانا اور جب وہ سیر ہو کر کھا لیں تو انہیں اطمینان کے ساتھ جگالی کرتے دیکھنا ایک انمول تجربہ ہے جس نے ہماری بچپن کی یادیں تازہ کر دیں۔
مہنگائی اور خستہ معاشی صورتحال
کراچی جانے سے کچھ دن قبل ایک پرانے محلے دار کی خود کشی کی اندوہ ناک خبر ملی تھی، کراچی میں قیام کے دوران بھی اس واقعے کی بازگشت سنائی دی۔ کوئی واضح وجہ سامنے نہ آسکی،جتنے منہ اتنی باتیں۔عموماً اس طرح کے واقعات میں سماج کی بے توجہی اور حالات کی تنگی شامل ہوتی ہے. ایسے واقعات یونہی اچانک نہیں ہو جاتے، کئی سال تک حالات کی آنچ پر تیار ہوتے ہیں۔ ہمارے ار گرد کئی لوگ ایسے بکھرے ہیں جنہیں توجہ کی ضرورت ہے، کوئی سننے والا کان درکار ہے۔ اگر ہم کسی کیلئے کچھ بھی نہ کر سکیں تو کم از کم دو میٹھے بول تو بول ہی سکتے ہیں۔
کراچی میں قیام کے دوران دو سے تین دفعہ مہنگائی اور حالات کی چکی میں پسے ہوؤں کے ساتھ سابقہ ہو گیا جنہیں گزارے کیلتے فقط آٹا درکار تھا۔ ایک موقع پر تقریباً ً پینتالیس سال کے لگ بھگ ایک صاحب نے سرگوشی میں ڈیڑھ کلو آٹے اور محض تین انڈوں کی ضرورت ظاہر کی، یہ صاحب شکل و صورت سے کسی اچھے گھر کے معلوم ہوتے تھے موٹر سائیکل پر تھے اور اپنی دو تین دن کی بھوک کا ذکر کیا۔اللہ اکبر، یہ اتنا حساس معاملہ ہے کہ بعض اوقات لوگ اپنی خود داری کے ہاتھوں بھوکے رہ لیتے ہیں لیکن اپنے بھائیوں سے بھی اپنی پریشانی شئیر نہیں کر پاتے ہیں. خوش حال لوگوں کا یہ فرض ہے کہ دور جانے سے پہلے اپنے آس پاس کی بھی خبر رکھیں ورنہ روزِ قیامت کڑا حساب منتظر ہو گا۔
محنت میں عظمت ہے
گھر کے لکڑی کےکاموں کیلئے اس بار بھی جب سلیم کار پینٹر کو بلایا تو وہ جھٹ سے آگیا اور انتہائی مناسب داموں پر سارا کام اسی دن کر ڈالا۔ اسکے بر عکس پلمبنگ اور دیگر کام متعلقہ افراد کی سستی اور کام چوری کی وجہ سے پورے نہ ہو سکے۔اگر ہر فیلڈ کے لوگ اپنا کام تندہی سے کریں تو سب اپنے حالات بدل سکتے ہیں۔ لیکن ایسا ہونا اچانک یا خودبخودممکن نہیں ہے۔
عید کے تیسرے دن موبائل فون کے کسی کام کے حوالے سے لوکل موبائل مارکیٹ جانا پڑا تو دیکھا کہ ساری مارکیٹ بند تھی، ہاں مگر مارکیٹ کے ساتھ ہی ایک چھوٹی شاپ کھلی تھی جس میں موبائل فونز کا سامان کسی کباڑ کی طرح بکھرا ہوا تھا اور ایک پتلا دبلا لڑکا موبائل کی ریپئرنگ میں مگن تھا. تھوڑی دیر میں وہ میری جانب متوجہ ہوا اور کسی طرح مطلوبہ سکرین پروٹیکٹر اپنی دکان میں سے ڈھونڈ کر لگا دیا۔ اسی دوران میں اسکا ایک دوست کولڈ ڈرنک لے آیا جو انہوں نے مجھے بھی پیش کی لیکن میں نے شکریہ کہہ کر معذرت کر لی، اور وہ ماؤنٹین ڈیو کی ہلکی ہلکی چسکیاں لے کر ایک بار پھر کام کرنے میں لگ گیا. میں عید کے دن کھلی دکان اور کام میں ایسی زبردست لگن سے بہت متاثر ہوا، اسکی کھل کر تعریف کی اور مشورہ دیا کی اگر وہ صفائی ستھرائی پر دھیان دے تو ان شاء اللہ بہت ترقی کرے گا۔ اس نے بتایا کہ اسکی دکان پہلے مرکزی موبائل مارکیٹ میں ہی تھی لیکن کچھ ناگزیر وجوہات کی بناء پر اسے جلد بازی میں وہاں سے نکلنا پڑا۔ بہرحال، میں نے اسکی دکان کے نام’ اسامہ موبائل ریپئرنگ’ اور رابطہ نمبروں کا سکرین شاٹ لیا اور وہاں سے واپس آ گیا۔ ایسے محنتی لوگوں پر یقیناً اللہ تعالیٰ اپنی خیر و برکت نازل فرماتا ہے۔
کراچی سے لاہور کا سفر اور قطر روانگی
عید کے چوتھے روز ہم کراچی سے لاہور کیلئے روانہ ہو گئے. جب ائرپورٹ پہنچے اور اندرونِ ملک روانگی کی قطار سے ہوتے ہوئے ٹکٹ چیکنگ کی جگہ پہنچے تو عین وقت پر مجھے یاد آیا کہ ٹکٹ تو موبائل فون سافٹ کاپی میں موجود ہے. میرے پیچھے ایک لمبی قطار لگی ہوئی تھی اور میں نے اپنا موبائل فون نکالا اور پاس ورڈ ڈال کر کھولنے لگا، جلد بازی میں ایک دو دفعہ غلط پاس ورڈ ڈال دیا. وہاں چیکنگ پر موجود اہلکار نے مجھے دیکھتے ہوئے کہا کہ سر ایک ریسرچ کے مطابق پاس ورڈ تو عموماً خواتین لگاتی ہیں اور مرد تو… “اچھا وہ جو مختلف شکلیں بناتے ہیں وہ” میں نے اسکا جملہ مکمل کیا تو اس نے معصوم شکل بناتے ہوئے کہا “جی بالکل سر جی”.. اور میں نے ایک ذور دار قہقہہ لگایا اور ٹکٹ دکھا کر آگے بڑھ گیا۔مجھے اس جگہ پر اس اہلکار سے اتنی زبردست قسم کی حسِ مزاح کی توقع بالکل بھی نہیں تھی۔
اس بار پہلی مرتبہ فلائی جناح کو استعمال کرنے کا اتفاق ہوا۔انکا عملہ مستعدی سے مختلف امور کی انجام دہی کر رہا تھا، جہاز نیا اور انتہائی صاف ستھرا تھا۔علی الصبح اٹھنے کی وجہ سے ہماری بچی کی نیند خراب ہو چکی تھی لہٰذ ا دورانِ پرواز اس نے رو رو کر آسمان سر پر اٹھا لیا، فضائی عملے سمیت ہم سب نے اس کو چپ کروانے کی ہر ممکن کوشش کر ڈالی لیکن کوئی اثر نہیں ہوا، بالآخر جب اس پر سورہ فاتحہ کا دم کیا تب جا کر وہ سکون سے سو گئی۔ بہرحال مجموعی طور پر فلائٹ بہت ہی شاندار رہی، لینڈنگ کے بعد سارے عملے نے بشمول کپتان کے(جو شکل سے غیر ملکی معلوم ہوتا تھا) سب مسافروں کو خوش دلی سے خیر باد کہا. یہ ایک خوشگوار تجربہ تھا۔ ائرپورٹ پر پی آئی اے کے جہاز کو دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ جس کا پینٹ بہت ہی خراب ہو چکا تھا۔ دعا ہے کہ پی آئی اے سمیت پاکستان کی سب ائیر لائنیں ترقی کریں، آمین۔
لاہور سے سرگودھا پہنچے جہاں اہلِ سرگودھا نے ہمیشہ کی طرح پر تپاک اور پر تکلف استقبال کیا۔ پاکستان کے اس خوبصورت شہر اور اس کے لوگوں نے مجھے بہت متاثر کیا ہے۔ اسی شام کو میں نے واپسی کا قصد باندھا اور ہمیشہ کی طرح لاہور ائیر پورٹ پر خریداری اور کھانا پینا کافی مہنگا لگا۔ وہاں چائے کے مجھے دو آپشن ملے ،ایک 450 اور دوسرا 400 روپے۔میں نے 400 روپے والا آپشن ٹرائی کیا، چائے بہت ہی شاندار تھی اور یہ تقاضا کر رہی تھی کہ بنانے والے کی تعریف کی جائے، میں نے اِدھر اُدھر دیکھا پر وہ شیف مجھے نظر نہیں آیا. جیسے ہی میں نے چائے ختم کی، وہ خود ہی کہیں سے نمودار ہواگیااور چائے کے ذائقے کے بارے میں دریافت کیا، میں نے دل کھول کر اسکی تعریف کی اور وہ خوش ہو کر چلا گیا۔.
قطر واپس آ کر ہمیشہ کی طرح پاکستان میں ہونے والے واقعات اور ملاقاتیں یاد آتی رہیں اور یہاں اور وہاں کے نظام اور معاملات کے تقابل کے بارے میں سوالات ذہن میں سر اٹھاتے رہے اور پھر ہمیشہ کی طرح سب کچھ نارمل ہو گیا۔
Featured image Courtesy https://www.etsy.com/hk-en/listing/685643912/karachi-skyline-pakistan-cityscape