اس سال کا دورہ کچھ پہلے جیسا بھی تھا اور کچھ الگ بھی تھا… ایک اوورسیز پاکستانی کی ڈائری سے!
وطن روانگی اور خطرناک کّوا
اس سال ہم نسبتاً زیادہ وقت یعنی ایک مہینے کیلئے پاکستان گئے، ارادہ اور خواہش یہ تھی کہ زیادہ وقت والدین کے ساتھ گزارا جائے گا. قصہ مختصر جمعہ 17جون کو ہم قطر سے کراچی پہنچے اور پہنچتے ہی سب سے پہلا مسئلہ ایک خطرناک اور بے باک کوّے کی صورت میں سامنے آگیا جو ہماری گلی میں سے گزرنے والوں پر حملہ کیا کرتا تھا. جیسے ہی اپنے گھر پہنچے تو سامان کی منتقلی کے دوران ہی اس نے دو دفعہ میرے سر پر اپنی ٹھونگ ماری، دل میں یہ خیال آیا کہ یہ کیسی عجیب شروعات ہوئی ہے چھٹیوں کی! جب آس پاس کے لوگوں سے معاملہ کی وجہ معلوم کیں تو مختلف آراء سامنے آئیں، کسی نے کہا کہ اس نے آجکل پیڑ پر بچے دیئے ہوئے ہیں اور کوّے کی یہ فطرت ہے کہ وہ ان دنوں میں ہر آس پاس کے شخص کو اپنا دشمن سمجھتا ہے. کسی نے کہا کہ ساتھ والوں نے اسکے انڈوں بچوں کو نقصان پہنچایا ہے لہٰذا اب یہ اپنا بدلہ لے رہا ہے. اب سوال یہ تھا کہ اس سے کیسے بچا جائے، ایک خیال تو یہ تھا کہ گوشت میں زہر ملا کر دے دیا جائے اور دوسرا یہ تھا کہ چھرّے والی گن سے اسکو مار دیا جائے. عرفان چاچو نے یہ حل بتایا کہ اسکو کچھ نہ کچھ کھانے کیلئے ڈال دیا کرو، یہ کھا پی کر چلا جائے گا اور حملہ بھی نہیں کرے گا. بہرحال مارنے والے خیال پر تو خیر عمل درآمد نہیں کیا البتہ قطر واپس آتے ہوئے ہم نے مرغی کا کچھ گوشت اپنی چھت پر ڈال دیا اور ابھی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق کّوے کے یہ حملے رک چکے ہیں۔

بجلی کا بحران
ہمارے کراچی میں قیام کے ابتدائی دنوں میں بجلی کا شدید بحران چل رہا تھا اور تقریباً آدھا وقت بجلی بند رہتی تھی، ایسے میں ایک پوری رات جاگ کر گزارنی پڑی اور دل میں یہ خیال آیا کہ شاید جو لوگ دوہری شہریت لے چکے ہیں وہ ٹھیک تھے اور یہ کہ اگلی دفعہ کم دنوں کیلئے پاکستان آئیں گے تاکہ اس اذیّت کا سامنا نہ کرنا پڑےـ طارق روڈ پر شاپنگ کے دوران یہی مسئلہ کئی دکانوں پر بھی دیکھا کہ جنہیں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے باعث کاروبار جلدی بند کرنا پڑ رہا تھاـ ان دنوں میں بازار رات نو بجے بند کرنے کی پابندی تھی. تعجب اس بات پر تھا کہ ایک دکان دار جو رات کو سکون سے سو نہیں سکا، وہ لازماً اگلے دن دیر سے دکان کھولے اور اوپر سے رات جلد بند کرنے کی سختی، بندہ آخر کرے تو کیا کرے؟

دوستوں سے ملاقات
کراچی میں تیسرے دن یعنی 19 جون کو یونیورسٹی دور کے چند دوستوں فرخ، عمیر، اور، حسین سے گلشنِ اقبال میں واقع ایک ریسٹورنٹ میں ملاقات کی جو کہ توقعات سے بڑھ کر شاندار رہی ـ خلوص اور محبت میں گندھے ہوئے ساتھی انتہائی والہانہ انداز میں ملنے آئے، اللہ تعالیٰ ان کو خوش رکھے، آمین
ریسٹورنٹ جانے کیلئے جو گاڑی میں نے حاصل کی اسکے ڈرائیور عدنان فیصل صاحب سے دورانِ سفر کچھ بات چیت ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ بیک وقت شاعر اور لکھاری بھی تھے، بعد ازاں انہوں نے اپنی کچھ تحریریں مجھ سے شئیر کیں جو کچھ نامکمل ہونے کے باوجود کمال کی تھیں. میں نے انہیں مشورہ دیا کہ آپ اپنی تحریریں شائع کیوں نہیں کرواتے؟ تو انہوں نے بتایا کہ مجھے تو کچھ زیادہ نہیں معلوم، آپ ہی میری تحاریر متعلقہ اداروں میں بھیج دیں. کچھ اور بات چیت ہوئی تو معلوم ہوا کہ انکے گھر میں پنکھوں اور بلبوں کے سوا کوئی قابلِ ذکر بجلی کا آئٹم نہ تھا. مہنگائی کا ذکر چھڑا تو انہوں نے بتایا کہ پہلے بجلی کا بل تقریباً سات آٹھ سو روپے تک آتا تھا جبکہ اب تیرہ سو روپے تک پہنچ چکا ہے. اللہ تعالیٰ آسانی فرمائے اور جن کے پاس نعمتوں کے انبار لگے ہوئے ہیں انہیں بھی اسکی قدر آجائےـ
تفریحی مقامات کی سیر
کراچی میں تفریح کے لیے بچوں کو لے کر بحریہ ٹاؤن ایڈوانچر پارک گئے جو کہ نسبتاً مہنگا ہونے کے باوجود زبردست جگہ ہے. عالمی معیار کے جھولے ہیں جن میں چند ایک خطرناک رائیڈز کے علاوہ باقی میں سب لوگ انجوائے کر سکتے ہیں. بحریہ ٹاؤن آئی میں بیٹھ کر پورے بحریہ ٹاؤن کا نظارہ کر سکتے ہیں. واٹر پلے ایریا بھی نہایت شاندار ہے خاص کر بچوں کے کھیلنے کی جگہ بہت پر رونق تھی. اگر فیملی نہانے کی جگہ کو مردوں اور عورتوں کیلئے علیحدہ علیحدہ کر دیا جائے تو کیا ہی بات ہے! مجموعی طور پر یہ ایک اچھا تجربہ تھا اور اسے انجوائے کرنے کیلئے ایک دن بھی کم پڑ جاتا ہے۔

بحریہ ٹاؤن کے علاوہ ہم پی اے ایف ونٹر لینڈ کراچی بھی گئے جہاں منفی 10درجہ حرارت پر عوامی تفریح کیلئے انتظامات کئے گئے ہیں. نہایت منظم انداز میں سب سے پہلے آپ کو آپ کے سائز کی جیکٹ فراہم کی جاتی ہے اور اسکے بعد آپ ایک گھنٹہ تک اس میں لطف اندوز ہو سکتے ہیں. فیملیز کے علاوہ وہاں بڑی تعداد میں نوجوان لڑکیاں، سہیلیاں بھی آئی ہوئی تھیں. مجموعی طور پر اچھی رائیڈز ہیں اور اندر ٹھنڈ میں کافی اور براؤنیز سے بھی لطف اندوز ہو سکتے ہیں ـ اندر ایک آدھ جگہ پر چھت سے پانی بہہ رہا تھا جب کہ سخت اور ٹھنڈی جگہ پر بعض جگہ پاؤں رکھنا بھی محال تھا. ونٹر لینڈ میں چھوٹے اور خاص کر شرارتی بچوں کے ساتھ جانے میں رسک ہے. امید ہے کہ اسکی انتظامیہ وقت کے ساتھ جگہ کو بڑھانے کے علاوہ اضافی حفاظتی اقدامات بھی کرے گی. داخلہ فیس کے حساب سےمجموعی طور پر یہ ایک بہتر تجربہ تھا۔

فراغت،ہمارا قومی مسئلہ
کراچی میں جب بھی اپنے کسی کام سے نکلنا ہوا، اکثر کئی نوجوانوں کو گلی محلے کے نکڑوں پر اور لوکل ہوٹلوں پر فارغ اور گپ شپ لگاتے ہوئے دیکھا جبکہ اکثریت حالات کا رونا بھی روتی ہے. شدت سے احساس ہوا کہ انفرادی اور اجتماعی طور پر اس فراغت کو ختم کرنا ہوگا جو کہ کئی برائیوں کی جڑ ہے. پاکستان میں کسی سے کوئی کام کروانا بھی ایک چیلینج سے کم نہیں ہے، اکثر پلمبر، کارپنٹر اور مستری وغیرہ وعدہ کرنے کہ باوجود بہت مشکل سے قابو میں آتے ہیں، یہ منع بھی نہیں کریں گے اور آنے کا اصل وقت بھی نہیں بتائیں گے بس ‘شام میں آتا ہوں یا کل آتا ہوں’ میں آپکو انتظار کرواتے رہیں گے۔
عام آدمی اور مہنگائی
پاکستان میں قیام کے دوران اور سفر میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے واضع اثرات نظر آئے اور اس دفعہ تقریباً دو گنا خرچہ ہوا. سفر کے کرائے بھی تقریباً دوگنے ہو چکے ہیں. عام آدمی انتہائی پریشان نظر آیا اور ایسے لوگ کی بے بسی بھی سامنے آئی جنہوں نے ساری زندگی عزت کے ساتھ گزاری ہے. ایک دن ایک شخص ہاتھوں میں ایک معصوم بچہ لیے دروازے پر آیا اور بتایا کہ وہ محلے میں کرائے دار ہے، رنگ کا کام کرتا ہے. کام نہ ہونے کی وجہ سے حالات دگرگوں ہیں، کل سے گھر میں کھانے کو کچھ نہیں ہے اور بچے کیلئے دودھ بھی نہیں ہے، روح کانپ گئی یہ حالت سن کر اور دیکھ کر! اللہ اس آزمائش کے دور سے جلد سب کو نکالے، آمین
قبرستان حاضری
اس دفعہ قبرستان بھی جانا ہوا اور سب بھائیوں کے ساتھ اپنے مرحومین کی قبروں پر فاتحہ خوانی کیلیے علی الصبح ہم موٹرسائیکلوں پر روانہ ہوئے. چند قبروں پر حاضری کے بعد جب ہم اپنی دادی اور دادا وغیرہ کی قبروں کی طرف روانہ ہوئے تو ہم نے دو موٹر سائیکل سواروں کی مشکوک حرکات کو محسوس کیا، يوں لگ رہا تھا کہ جیسے اپنے شکار پر جھپٹنے کی تیاری کر رہے ہوں. لہذا دیر کیے بغیر ہم سر پر پاؤں رکھ کر وہاں سے بھاگ لیے اور اپنے علاقے میں آ کر ہی دم لیا. کتنی افسوس ناک بات ہے کہ اب انسان اپنے پیاروں کی قبروں پر بھی اطمینان سے نہیں جا سکتا ہے. پاکستانی عوامی قبرستانوں میں صفائی ستھرائی اور حفاظتی انتظامات کی اشد ضرورت ہے کیونکہ ایک دن سب نے وہیں دفن ہونا ہے۔

بارش اور عیدالاضحیٰ
عیدِ قرباں قریب آئی تو کراچی کو شدید بارشوں نے آ گھیرا. بارشوں میں رات کے وقت پرانے علاقے کی سنسان گلیاں کسی جاسوسی اور سسپنس سے بھرپور فلم کا منظر پیش کر رہی تھیں. ایسے میں باہر کچھ چہل قدمی یا پھر موٹر سائیکل پر گھومنا ایک خوابناک تجربہ رہا… ہاں! دل میں آوارہ کتوں یا پھر اچکّوں سے سامنے کا خوف ضرور اس تجربے میں ہر دم مخل ہوتا رہا. کہیں
بارش کی وجہ سے ہم عید سے محض ایک دن پہلے بکروں کی خریداری پر جانے کا فیصلہ کیا، اس دفعہ بھینس کالونی کی بجائے لانڈھی 89 کی بکرا منڈی گئے. عید سے پہلے عمومی خیال یہ تھا کہ بکرے انتہائی مہنگے ملیں گے لیکن کمر توڑ مہنگائی کی وجہ سے اور بارشوں کے باعث منڈی کے ریٹ کم ہو گئے اور یوں سب اپنے اپنے بجٹ میں بکرا لینے میں کامیاب ہو گئے. اس دفعہ محلےمیں بڑے جانور نسبتاً کم نظر آئے اور روایت کے بر خلاف لوگ عید سے قریب اپنے اپنے جانور لے کر آئے. عید کے پہلے دن اللہ تعالیٰ نے اپنا خصوصی کرم کیا اور عین قربانی کے وقت بارش نہیں ہوئی لہذا اکثریت نے الحمدللہ اطمینان سے قربانی کا فریضہ سر انجام دے دیاـ عید میں صبح موسمی قصائیوں کی ڈیمانڈ ہائی تھی اور رات کو موسمی قیمہ بنانے والوں کی جو چھوٹے چھوٹے سیٹ اپ لگا کر بیٹھے ہوئے تھے اور انتہائی مناسب ریٹ پر قیمہ اور پائے بھی بنا کر دے رہے تھے۔

عید کے دوسرے روز میں اپنے بچپن کے بہترین دوستوں کے گھر جب گوشت دینے نکلا تو مدت بعد پرانے راستوں سے گذرتے ہوئے تبدیل شدہ منظر نامے کے باوجود ان گنت یادیں دل کے دروازے پر دستک دینے لگیں اور میں وقت کی سبک رفتاری پر مبہوت رہ گیا۔ گر جگہیں اور عمارتیں تو وہی تھیں لیکن وہ مانوس چہرے اب کہیں نظر نہیں آ رہے تھے. ایسے میں وہ پر رونق اور دل آویز ماحول ہی نہیں تھا جس کی دھن میں ہم کبھی مگن رہا کرتے تھے. خوش رہیں آباد رہیں وہ ساتھی، وہ اساتذہ جن کے دم سے ناچیز اور نادان بھی پھل پھول سکے۔
پنجاب کا سفر اور قطر واپسی
عید کے فوراً بعد 13 جولائی کو ائیر بلیو کی پرواز سے ہم کراچی سے لاہور کے لیے روانہ ہوئے. کراچی میں موسم خوشگوار تھا لیکن جیسے ہی جہاز لاہور کی فضائی حدود میں داخل ہوا تو انتہائی خراب موسم اور بادلوں سے واسطہ پڑ گیا اور مجبوراً کیپٹن نے اپنا رخ ملتان کی جانب موڑ لیا، لاہور سے 120 میل کے فاصلے پر آ کر جہاز چکر لگانے لگا اور لاہور میں موسم ٹھیک ہونے کا انتظار ہونے لگا. عملہ اور مسافر دونوں اس صورتحال میں بہت زیادہ خوفزدہ تھے، یوں محسوس ہو رہا تھا کہ یہ جہاز یوں ہی فضا میں اڑتا رہے گا، بہرحال میں نے اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کی اور ذکر کرنے لگ گیاـ آخر کار ایک گھنٹے کی تاخیر سے ہمارا جہاز لاہور ائیر پورٹ پر لینڈ کر گیا، لینڈ ہوتے کی مسافروں نے کیپٹن کی مہارت پر بھرپور تالیاں بجائیں اور بعد ازاں کیپٹن نے کاک پٹ سے باہر آکر مسافروں سے علیک سلیک بھی کی اور داد بھی وصول کی۔
پنجاب میں رشتہ داروں نے مہمان نوازی کی انتہا کر دی اور انواع اقسام کے کھانوں سے ہماری تواضع کی. دو دن پنجاب میں گزارنے کے بعد میں نے سفر کا قصد باندھا، فیصل آباد سے بلال بٹ اور عثمان بٹ بھائی انتہائی خلوص کے ساتھ لاہور ائرپورٹ تک چھوڑنے کیلئے آئے اور یوں سفر کا مزہ دو بالا ہو گیا. لاہور ائیر پورٹ کے داخلی راستے پر گاڑیوں کی لمبی قطاروں کے باعث بہت زحمت اٹھانی پڑی ـ کچھ یہی حال چیک ان کے راستے میں اور امیگریشن پر تھا. فلائیٹ سے تقریباً سوا تین گھنٹے قبل ائرپورٹ پہنچنے کے باوجود میں انتہائی مشکل سے جہاز تک پہنچ سکا۔
الحمداللہ میں 15جولائی،2022 کو بخیریت دوحہ قطر پہنچ گیا ـ تارکینِ وطن عموماً وطن سے واپس آنے کے تقریباً ہفتہ دس دن تک انتہائی جذباتی کیفیت کا شکار رہتے ہیں. قطر واپس آ کر قیامت خیر گرمی کا سامنا کرنا پڑا تو پاکستان کا خوشگوار موسم بہت یاد آیا. پھر ملیں گے پاکستان، ان شاء اللہ
#Pakistan #PakistanVisit #SultanShah #Rain #FloodsInPakistan #Inflation #Society #Feelings #Experineces #Reality
Good job👍
LikeLike
Good job👍,”🌹
LikeLike