کئی سال کی پلاننگ کے بعد اس سال بالآخر ہم پاکستان میں سیاحت کے لیے نکل ہی گئے. میں بہت ہی پر جوش انداز میں 31 جولائی کو قطر سے پاکستان پہنچا. ان دنوں شدید بارشیں چل رہی تھیں لیکن الحمدللہ مجھے لاہور سے سرگودھا کے راستے میں بہت خوبصورت موسم ملا. بدقسمتی سے اسی دن موٹر سائیکل چلاتے ہوئے گرا اور بائیں بازو میں چوٹ لگ گئی . پھر بھی ہمت کر کے اگلے دن یعنی یکم اگست کو ہم سرگودھا سے اسلام آباد روانہ ہوگئے. اسلام آباد میں ہمیں میری اہلیہ کے بھائی علی نے جوائن کیا.اس موقع پر میں ، میری اہلیہ دو بچے اور علی شریکِ سفر تھے. ہم اسلام آباد سے سوات کیلئے روانہ ہوئے. سوات موٹروے پر چائے کے وقفہ کیلئے مختر قیام کیا اور مسحور کن منظر سے لطف اندوز ہوئے.
رات گئے بحرین (سوات) کے ایک ہوٹل میں قیام کیا. ہوٹل کے ساتھ بپھرا ہوا دریائے سوات دوڑ رہا تھا، اگلی صبح ہوٹل کی بالکونی سے یہ منظر دیکھنا انتہائی منفرد تجربہ تھا. تمام ہوٹلوں نے دریا کے ساتھ ہی پائپ لگا کر پانی کی فراہمی کا بندوبست کر رکھا تھا.انڈہ پراٹھہ، چنے وغیرہ کا روایتی ناشتہ کر کے ہم اپنی اگلی منزل کالام روانہ ہو گئے. ابھی نکلے ہوئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ ٹریفک جام کا سامنا کرنا پڑا. ایک یا غالباً دو ٹرک رک گئے تھے جس کی وجہ سے راستہ بند ہو چکا تھا اور پھر لوگوں نے بھی جلد بازی میں اپنی گاڑیاں مخالف سمت میں ڈال کر سب کو پھنسا دیا. اللہ اللہ کر کے چند متحرک لوگوں اور پولیس نے راستہ کھلوایا. راستے میں چند ایک جگہ رک کر تصویریں بنوائیں، جمعہ پڑھا اور قریباً دو بجے کالام پہنچ گئے اور ہوٹل پہنچ کر سامان رکھ دیا.
ہمارا اگلہ پوائنٹ مہوڈنڈ جھیل تھا، علی نے آناً فاناً وہاں جانے کیلئے فور وہیل گاڑی کا بندوبست کر لیا اور یوں ہم قریباً ساڑھے تین بجے روانہ ہو گئے. راستہ بہت خراب تھا اور سارا راستہ اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے دعائیں پڑھتے گزرا. راستے میں ‘اصلی ٹراوٹ فش’ کے ایک پوائنٹ پر ایک کلو ٹراؤٹ بنانے کا آرڈر دیا کہ ہماری واپسی تک تیار کر رکھے. مغرب سے آدھ پون گھنٹہ پہلے جھیل پہنچے، وہاں کے مناظر واقعی قدرت کا شاہکار تھے.بچوں نے ہارس رائڈنگ کی اور ہم نے خوب تصویریں بنائیں. ٹھنڈے یخ چشمے سے وضو کیا اور نماز ادا کی. مہوڈنڈ جھیل کی ٹھنڈ کے ساتھ گرما گرم چائے نے مزہ دوبالا کر دیا .
رات کی سیاہی اپنا رنگ جما رہی تھی، دیو ہیکل پہاڑ کسی پہرے دار کی مانند ایستادہ کھڑے تھے، کڑاکے دار دریا اپنے جوبن پر تھا اور ہم واپسی کیلے روانہ ہوئے. ‘اصلی ٹراؤٹ’ کا کھانا کھایا، مچھلی واقعی بہت لذیز بنی تھی. اس دن پتہ چلا کہ ٹرؤٹ کو کانٹوں سمیت بھی کھا لیتے ہیں، یہ ہمارے لئے اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ تھا. راستے میں گاڑی کا ڈرائیور ‘عاشق حسین’ اور اگلی سیٹ پر بیٹھا علی آپس میں لمبی گفتگو میں لگے ہوئے تھے، خوش گپیوں کی شدت کے درمیان کبھی کبھی عاشق حسین سٹئیرنگ چھوڑ کر اشارے سے بات کرتے ہوئے علی کی طرف دیکھتا اور ایسے میں، میں اور میری اہلیہ خوفزدہ نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگتے.
راستے میں ہم نے دیکھا کہ مقامی بچے گزرتی گاڑیوں کے پیچھے لٹک کر جا رہے تھے، اسی طرح ایک بچہ ہماری گاڑی کے پیچھے بھی لٹک گیا. ڈرائیور نے گاڑی روک کر اسے ڈانٹا لیکن پھر ہمارے کہنے پر اسے گاڑی کے اندر بٹھا لیا. ڈرائیور نے اپنی زبان میں بچے سے کچھ باتیں کیں اور پھر ہمیں بتایا کہ یہ بچہ ابلے انڈے بیچتا ہے اور آج چار سو روپے کما کر واپس جا رہا ہے. یہ بچے اسی طرح آتی جاتی گاڑیوں کے پیچھے لٹک کر سفر کرتے ہیں. ہم یہ سوچنے لگے کہ زندگی بہت سے لوگوں پر کتنی سخت ہے اور کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں ہر طرح کی آسائش میسر ہے. میری اہلیہ نے اس بچے کو کچھ پیسےدینا چاہے تو اس نے قدرے جھجھکتے ہوئے غیر یقینی انداز میں لے لئے. بچہ راستے میں اپنے گھر پر اتر گیا.
راستے میں کئی طرح کے موضوع زیرِ بحث آئے، عاشق حسین نے قدرے محتاط انداز میں سوات کے خراب دنوں کا ذکر کیا. وہ آج کے حالات اور صورتحال سے بہت مطمئن تھا اور فخر سے بتا رہا تھا کہ آپ چاہے رات کے کسی پہر بھی باہر نکل جاؤ، کوئی آپ کو نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گا. عاشق حسین نے کالام داخل ہو کر وہاں کی ساڑھے تین سو سال پرانی تاریخی قدیم مسجد دکھائی جو لکڑی کی بنی تھی اور مرکزی دروازے پر انتہائی نفیس کام ہوا دکھائی دے رہا تھا.
کالام میں رات کے وقت سرکاری اسپتال میں، میں نے اپنا علاج کروانے کی کوشش کی تو اسوقت وہاں کوئی ڈاکٹر موجود نہ تھا اور سپورٹ اسٹاف کسی نا کسی طرح کام چلا رہا تھا. کوئی خاص انتظام موجود نا تھا، ان لوگوں نے مجھے انجیکشن لگانے کی پیشکش کی جو میں نے رد کر دی اور صرف پٹی کروانے پر ہی اکتفا کیا. اسی دوران ایک چھوٹی بچی وہاں لائی گئی تھی جس نے غلطی سے کیڑے مار دوا کھا لی تھی، اسکو وہاں ڈرپ لگا کر لٹایا ہوا تھا اور سب لوگوں کے چہرے اترے ہوئے تھے. سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے کچھ زیادہ دیکھ بھال ممکن نا تھی. ناجانے اس بچی کا بعد میں کیا بنا ہو گا!
اگلی صبح ہم لوگ مالم جبہ کیلئے روانہ ہوئے. راستے میں جگہ جگہ روڈ کا تعمیراتی کام چل رہا تھا. راستے میں چند ایک جگہ رک کر تصویریں بنائیں. بحرین میں عصر کی نماز ادا کی اور پھر مالم جبہ کی طرف دوبارہ روانہ ہوگئے. مالم جبہ جانے والی سڑک ہماری توقع کے بر خلاف عموماً بہت اچھی تھی. راستے میں جگہ جگہ مقامی بچے سیاحتی گاڑیوں کے پیچھے پیچھے بھاگ کر تازہ ناشپاتیاں بیچنے کی کوشش کر رہے تھے. ٹاپ پر پہنچنے سے اندازاً 11 کلومیٹر قبل ہم ایک چھوٹی دکان نما ہوٹل پر رکے. دکان پر سب بچے بچے ہی موجود تھے، ہماری فرمائش پر بڑے بچے نے دودھ پتی تیار کی اور کیک بسکٹس کے ساتھ پیش کی. اس دوران بچیاں اور چھوٹے بچے شرمیلے انداز میں چھپ کر ہمیں دیکھتے رہے. ہمیں بالکل ٹی وی ڈراموں والے سین یاد آ گئے. تھوڑی ہی دیر میں ان بچوں کے نانا آ گئے اور ہمیں اپنےگھرانے کے بارے میں بتانے لگے. جب ہم نے اس سے پیسے پوچھے تو اس نے کہا کہ ُرہنے دو ٗ. بہرحال ہم نے اصرار کر کے اسے قیمت ادا کی اور انکے خلوص کی گرم جوشی لیے آگے بڑھ گئے.
ٹاپ سے کچھ پہلے کا راستہ کافی خراب تھا. ہم جب مالم جبہ چیئر لفٹ پر پہنچے تو لفٹ کا ٹائم ختم ہو گیا تھا. وہیں سے ہوٹل کرنے کیلئے واپس مڑے، رش ہونے کی وجہ سے ہوٹل روم عجلت میں بک کر لیا. مالم جبہ میں ہوٹلنگ اور کھانے کا معیار بلند کرنے کی اشد ضرورت ہے. اس سارے دورانیے میں پشتون بھائیوں کی فراخ دلی اور گرم جوشی نے بہت متاثر کیا، ان جگہوں کے لوگ بہت اچھے ہیں، آ پ ضرور ان علاقوں میں جائیے.
اگلے دن ناشتے سے فارغ ہو کر اندازاً 10 بجے ہم مالم جبہ چیئر لفٹ پوائنٹ پر پہنچ گئے، ابھی لفٹ شروع ہونے میں تھوڑا وقت تھا، ہم نے وہاں بیٹھ کر وقت گزارنا شروع کر دیا .
میں نے وہاں بیٹھ کر ذرا غور کیا تو آس پاس بہت سے مقامی بچے بکھرے تھے اور سیاحوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے، کوئی ابلے انڈے بیچ رہا تھا تو کوئی ٹافیاں اور کوئی ٹورسٹ بنا ہوا تھا. اتنے سارے پھولوں کو دیکھ کر دل بہت بوجھل ہو گیا اور آنکھوں میں نمی! پڑھنے لکھنے کی عمر میں زندگی ان معصوموں سے کیا کام لے رہی تھی اور ان کے زریعے صاحبِ اقتدار اور صاحبِ استطاعت لوگوں کو کیسے آزما رہی تھی.اگر آپکو راستے میں کوئی پھول گرا ہوا نظر آجائے تو اسے اٹھا کر سائے میں رکھ دیجئے، اگر یہ نہیں کر سکتے تو اس سے کترا کر آگے بڑھ جائیں… لیکن خدارا کسی پھول کو پاؤں تلے نہ روند کر نکل جائیں…کسی کے پھولوں کو رولنے سے پہلے اپنے پھولوں کا ضرور سوچئے!
اسی دوران ایک مقامی بچے ‘شعیب اللہ’ نے ہمیں اپنی خدمات پیش کیں اور ہمیں گھمانے ایک قریبی مقام گرین ویلی لے گیا. وہ ہر کام کرنے کیلئے تیار تھا مثلاً پانی کی بوتل بھی مجھے پکڑا دو، اپنی جیکٹ بھی مجھے دے دو وغیرہ وغیرہ. شعیب الل بمشکل 8-9 سال کا بچہ تھا اور قد میں میرے 5 سالہ بڑے بیٹے سے بمشکل تھوڑا ہی بڑا تھا لیکن انتہائی مہارت سے پر پیچ راستے سے گزارتا ہوا گرین ویلی لے گیا.
گرین ویلی ایک چھوٹا سر سبز میدان تھا جہاں بچوں کیلئے جھولے اور سلائیڈز لگی ہوئی تھیں. وہاں سے واپس گیلے راستے اور کھائیوں سے بچتے بچاتے واپس آئے اور چئیر لفٹ پر سوار ہو گئے، شعیب اللہ بھی ہمارے ساتھ ہی اوپر چلا آیا.
علی اور شعیب اللہ کی بہت اچھی جم رہی تھی. کچھ لوگ اس مقام سے اور آگے سیڑھیاں چڑھ کر جا رہے تھے. ہم نے شعیب اللہ کو معاوضہ دے کر فارغ کیا، اسی دوران میں نے ایک آدمی کو مسکراتے دیکھا جو کہ بچے کو کمائی ملتے دیکھ کر خوش ہو رہا تھا! اس مقام پر ہم نے خوب تصویریں بنائیں، واپس آ کر ہوٹل سے اپنا سامان اٹھایا اور واپس روانہ ہوگئے.
ہماری اگلی منزل مری تھی. راستے کی خوبصورتی انجوائے کرتے، تصویریں بناتے ہم اسلام آباد پہنچے.
علی نے ہمیں شاہ فیصل مسجد، پارلیمنٹ ہاوس اور سپریم کورٹ کی عمارتیں دکھائیں. ہم ان عمارتوں کے عین سامنے سے گزرے، سنسان سڑک پر ہو کا عالم تھا لیکن حیران کن طور پر ہمیں کسی نے نہ روکا. ہم شہرِ اقدار میں موجود تھے جہاں موجود صاحبِ اقتداروں نے ایک نظریاتی ملک کے ساتھ کیا کچھ نہیں کر ڈالا تھا.. اللہ تعالیٰ کی بیش بہا نعمتوں کے باوجود بد نیتی، نا اہلی اور بد انتظامی کے باعث کتنے ہی لوگ اپنے گھروں سے دور غیر ممالک میں حصولِ روزگار کے لئے مجبور ہیں. اسلام کے نام پر ملک کا حصول اور پھر اپنے رب سے دھوکہ دہی، شدید وعدہ خلافیاں جنہوں نے ناجانے کنتی بے چارگیوں کو جنم دیا اور قوم کے خواب بکھیر کر رکھ دئیے…میں ان ہی سوچیوں میں گم تھا. کچھ وقت گزارنے، کھانا کھانے کے بعد ہم رات گئے مری چلے گئے.
مری میں اگلی صبح ناشتے کی میز پر ایک انتہائی معمر صاحب جن کی عمر غالباً ستر سال یا پھر کچھ زیادہ ہو گی، ان کو ٹیبلوں پر کھانا سرو کرتے ہوئے دیکھا. نا جانے کون سی مجبوری ان سے یہ کام کروا رہی تھی!
علی کے ایک دوست وقاص صاحب اپنی گاڑی میں لے کر ہمیں گھمانے نکلے. پنڈی پوائنٹ اور کشمیر پوائنٹ دیکھا اور کچھ دیر نتھیا گلی گھومے. نتھیا گلی میں عجب حسنِ اتفاق ہوا کہ دوحہ میں ہمارے ایک جاننے والے سرور صاحب سے ملاقات ہو گئی. اسکے علاوہ ایوبیہ بھی گئے.
مری کی سڑکوں پر مری کا مخصوص موسم محسوس کیا یعنی بادلوں، پہاڑوں اور درختوں کی تال میل اور بیچ بیچ میں ہلکی ہلکی بارش جو کہ ہم جیسے شہریوں کیلئے انتہائی راحت کا باعث ہوتا ہے.
دورانِ سفر ہم نے چولہے پر پکی تازہ دودھ سے بنی چائے کی تلاش کی جو نہ ملی.اس بات کا تذکرہ جب وقاص بھائی سے کیا تو انہوں نے فوراً کہا ‘ یہاں تازہ دودھ کی چائے ملنا مشکل ہے، کل میں صبح آپ کیلئے تازہ دودھ لے آؤں گا اور آپ یہاں کسی بھی ریسٹورنٹ میں دے کر چائے بنوا لیجیے گا.’ حیران کن طور پر وہ اگلے دن اپنے وعدے کے مطابق دودھ لے بھی آئے اور ہم نے بہترین چائے بنوا کر پی. شکریہ وقاص بھائی!
رات کو مشہورِ زمانہ مال روڈ گھومے اور مختصر شاپنگ کی. مری میں بھی دکان داروں کا رویہ اچھا پایا.
مری میں آخری دن ہم نے مری جی پی او میں موجود بک شاپ سے کچھ کتابیں لیں. سہ پہر کو ہم پنڈی پوائنٹ کی چیئر لفٹ گئے اور انتہائی خوبصورت مناظر انجوائے کئے. چیئر لفٹ جب اونچائی کی جانب اپنے اسٹاپ کے قریب پہنچی تو نیچے چند فوٹو گرافروں نے 100 روپے فی تصویر کی آوازیں لگائیں اور لوگوں کے حامی بھرنے پر دھڑا دھڑ تصویریں بنانے لگے اور پھر بھاگتے ہوئے اوپر اپنی شاپ پر پہنچ گئے اور لوگوں کی پسند کی تصویریں بنانے لگے. ہم نے جس لڑکے سے تصویریں بنوائیں وہ بمشکل 16-18 سال کا تھا اور اوپر پہنچ کر اسکا چہرہ لال، ماتھے پر پسینہ اور سانس پھولا ہوا تھا. واقعی کچھ لوگوں کیلئے حصولِ روزگار کتنا مشکل ہوتا ہے..
وہاں ٹاپ پر ہم نے بچوں کو ہارس رائڈنگ کروائی. میں نے دونوں بچوں کو ایک سفید گھوڑے پر سوار کروا دیا تو ایک اور گھوڑا بان جس کے پاس گہرے رنگ کا گھوڑا تھا وہ بھی آگیا اور گھڑ سواری کیلئے اصرار کرنے لگا. جب اس نے بہت اصرار کیا تو میں نے ایک بچہ اسکے گھوڑے پر بھی سوار کروا دیا. بہت دکھی لہجے میں کہنے لگا ‘صاحب یہ جو میرے پاس گھوڑا ہے یہ زیادہ اچھی نسل کا ہے پر کالا ہے لیکن لوگ نسل کا فرق نہیں سمجھتے اور سفید گھوڑا پسند کرتے ہیں ، مجھ سے بڑی غلطی ہوئی مجھے بھی سفید ہی گھوڑا لینا چاہیے تھا.’ پھر خود ہی کہنے لگا کہ جو نصیب میں رزق ہے وہ تو ضرور ملے گا. میں اسے تسلی دے کر اپنی فیملی کے ساتھ رخصت ہو گیا. کیسی کیسی داستانیں بکھری ہیں ہمارے آس پاس !
ڈھلتی شام کے وقت پنڈی پوائنٹ کی چئیر لفٹ میں سواری کرتے ہوئے قدرتی حسین جنگل کے بیچوں بیچ گزرنا، حشرات اور دیگر پرندوں کی آوازیں بہت شاندار تجربہ رہا.
مری میں بھی میں نے مرکزی سرکاری ہسپتال سے علاج کروانے کی کوشش کی. ڈاکٹر صاحب کی حالت قابلِ رحم تھی، وہ تقریباً جھوم رہے تھے اور ایسا لگ رہا تھا کہ کسی بھی لمحے گرِ جائیں گے. شاید تھکن کی وجہ سے ایسا ہو یا پھر وہ تھے ہی ایسے واللہ عالم! اسوقت ہسپتال میں ایک خاتون کا ‘آپریشن’ چل رہا تھا اور اسٹاف کی بد حواس حالت بتا رہی تھی کہ ‘کیسا آپریشن’ چل رہا ہے. مجھے ڈاکٹر نے ایکسرے لکھ کر دیا اور جب میں متعلقہ جگہ پہنچا تو وقت ختم ہو گیا اور یہاں سے بھی بغیر علاج کے ہی لوٹنا پڑا.
اگست کی سات تاریخ کو مری سے واپسی ہوئی. ہم نے راولپنڈی، سرگودھا اور فیصل آباد میں مختصر قیام کیا اور وہاں سے عید کیلئے کراچی آ گئے .اس دوران احباب نے ہمیشہ کی طرح بہترین مہمان نوازی کی اور ہر طرح ساتھ دیا. اللہ تعالیٰ سب کے رزق میں برکت عطا فرمائے، آمین.
بلا شبہ سفر ایک بہترین استاد ہوتا ہے جیسا کہ چند واقعات اوپر درج کئے گئے ہیں. یہ اور اسکے علاوہ بہت سے چھوٹے چھوٹے تجربات بہت کچھ سکھا جاتے ہیں. دورانِ سفر ڈرائیوروں سے آپ کو بہت حیران کن واقعات سننے کو ملتے ہیں. پاکستان کے سیاحتی مقام بہت خوبصورت ہیں، انکو مزید ڈویلوپ کرنے کی ضرورت ہے خصوصاً روڈ کے اردگرد حفاظتی اقدامات اور موثر طبی سہولیات کی فراہمی اشد ضروری ہے. سوات کالام، مالم جبہ اور مری کا ہمارا یہ سفر بہت زبردست رہا، بالخصوص لوگوں کی سادگی اور کھلے پن نے بہت متاثر کیا. آپ کو بھی موقع ملے تو اپنا ملک ضرور گھومنے نکلیں ساتھ ہی یہ کوشش بھی کریں کہ بہت زیادہ خطرناک راستوں پر نا جائیں ، الل تعالیٰ سب کا حافظ و ناصر ہو!
Beautifully defined…i was enjoying different places while i was reading…
گھومنے پھرنے کے شوق کے ساتھ اپنی حسین یادوں کو قلمبند کرنے کا ہنر بھی بہت کم لوگوں کے پاس ہوتا ہے…
Appreciated!
LikeLike
Thanks a lot
LikeLike
Dear Sir Sultan,
Thank you so much for sharing the travel experience. I enjoyed the blog, its very interesting, inspiring , emotional and very organised.
Wish you all the best.
LikeLike
Thanks a lot dear Tariq bhai
LikeLike
Dear Sir Sultan,
Thank you so much for sharing the travel experience. I enjoyed the blog, its very interesting, inspiring , emotional and very organised.
Wish you all the best.
LikeLike